عید اور رمضان کے چاند کا دیکھا جانا گزشتہ کئی برس سے متنازعہ رہا ہے۔ |
پاکستان
میں جہاں رمضان اور عید الفطر کے چاند کا دیکھا جانا گزشتہ کئی دہائیوں سے
متنازعہ رہا ہے اور چاند نظر آنے یا نہ نظر آنے کے اختلافات کی نوعیت
علاقائی رہی ہے اس برس یہ مسئلہ پہلی بار فرقہ وارانہ شکل اختیار کرتا
دکھائی دے رہا ہے۔
گزشتہ برسوں میں یہ بھی
ہوتا رہا ہے کہ صوبۂ سرحد میں رمضان اور عید الگ تاریخ سے منائے گئے ہیں
اور ملک کے باقی ماندہ حصوں میں الگ تاریخ کے حساب سے۔
اس
برس صرف صوبۂ سرحد میں ہی نہیں ملک بھر میں رمضان الگ تاریخ سے منائے
جارہے ہیں اور خدشہ ہے کہ تاریخوں کا یہی فرق عید کے سلسلے میں بھی متنازعہ
رہے گا۔
اس بار ملک بھر میں دیوبندی مسلک سے تعلق
رکھنے والے علماء نے سرکاری اعلان کے برعکس رمضان کا آغاز اٹھائیس اکتوبر
کی بجائے ستائیس اکتوبر سے ہونے کے فتوے جاری کیے ہیں۔
ملک
بھر میں دیوبندی مسلک کے مقلدین نے رمضان کا آغاز ستائیس اکتوبر کے حساب
سے اعتکاف کی عبادت پندرہ نومبر سے ہی شروع کردی ہے اور علماء کے فتووں کے
مطابق دیوبندی مسلک کے مقلدین ایک روزہ کی قضا عید کے بعد ادا کریں گے۔
دوسری
طرف ، بریلوی ، اہل تشیع اور اہل حدیث مسالک سے تعلق رکھنے والے افراد
پنجاب اور سندھ میں سرکاری اعلان پر عمل کررہے ہیں اور انہوں نے اعتکاف کا
آغاز سولہ نومبر سے کیا ہے۔
لاہور میں دیوبندی
مسلک کے بڑے مدرسے جامعہ اشرفیہ کے صدر مفتی حمیداللہ جان نے بی بی سی اردو
ڈاٹ کام کو بتایا کہ پنجاب میں دیوبندی مسلک کے مقلدین نے بریلوی مسلک سے
تعلق رکھنے والے عالم دین اور مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب
الرحمٰن کا فیصلہ اس لیے تسلیم نہیں کیا کہ رویت ہلال کمیٹی کے چار میں سے
تین ارکان نے یعنی اکثریت نے ان کے اعلان سے اختلاف کیا اور رمضان کا چاند
چھبیس اکتوبر کو نظر آنے اور یکم رمضان ستائیس اکتوبر کو ہونے کا اعلان
کیا۔
مفتی حمیداللہ جان کا کہنا ہے کہ عدلیہ کی اعلیٰ سطحوں پر منصفین کی اکثریت کا فیصلہ تسلیم کیا جاتا ہے۔
انہوں
نے کہا کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی نے ساڑھے سات بجے شام چاند نظر نہ آنے کا
اعلان کیا جب تک کوئی شہادت موصول نہیں ہوئی تھی اور اس اعلان کے بعد صوبۂ
بلوچستان سے کمیٹی کے رکن کوئٹہ کے لیے روانہ ہوگئے۔
مفتی
حمید اللہ نے کہا کہ کچھ دیر بعد جب چاند نظر آنے کی شہادتیں موصول ہوئیں
تو باقی تین ارکان میں سے دو ارکان نے انہیں تسلیم کیا لیکن مفتی منیب
الرحمٰن نے پھر بھی اختلاف کیا۔ مفتی حمید اللہ کے مطابق پہلے اعلان کے بعد
واپس لوٹ جانے والے صوبۂ بلوچستان سے رویت ہلال کمیٹی کے رکن نے بھی بعد
میں مفتی منیب الرحمٰن کے سرکاری اعلان سے اختلاف کیا۔
مفتی
حمیداللہ کا کہنا ہے کہ شریعت کی رو سے چاند نظر آنے کے معاملے میں کسی
قاضی کی قضا درکار نہیں بلکہ اس کا فیصلہ کوئی بھی شخص خبر ملنے پر خود
کرسکتا ہے۔ اس لیے کہ فقہی اعتبار سے رویت ہلال شہادت کی سبیل نہیں اخبار
کی سبیل ہے اور اس بات پر چاروں آئمہ کرام کا اتفاق ہے۔
جامعہ
اشرفیہ کے صدر مفتی حمید اللہ کا کہنا ہے کہ اس بار چاند نظر آنے کی شواہد
بھی زیادہ تھے۔ ان کے مطابق بلوچستان کے علاقے پشین سے چاند نظر آنے کہ
ستر شواہد ملے اور کوئٹہ، قلات، بنوں، پنج شیر، پشاور کے نواح اور لکی مروت
سے بھی شواہد موصول ہوئے۔
دوسری طرف وفاقی
وزیراطلاعات شیخ رشید احمد نے صوبۂ سرحد میں چاند نظر آنے کی بات کا مذاق
اڑاتے ہوئے بیان دیا تھا کہ صوبۂ سرحد میں لوگ اپنے بیٹے کو سامنے بٹھا کر
کہہ دیتے ہیں کہ چاند نظر آگیا۔ شیخ رشید کے اس بیان پر ناراضی کا اظہار
کرتے ہوئے صوبۂ سرحد سے رویت ہلال کمیٹی کے رکن مولانا حسن جان نے کمیٹی کی
رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
دیوبندی علماء نے
اس بار سرکاری اعلان کے خلاف پورے ملک میں جس اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے وہ
ایک طرف مگر دوسرے مسالک کے لیے جو بات زیادہ پریشانی کا باعث ہے وہ یہ کہ
چاند کو گرہن چودھویں کو لگتا ہے اور اگر سرکاری اعلان کو درست تسلیم کیا
جائے تو اس بار چاند گرہن رمضان کی تیرھویں تاریخ کے چاند کو ہوا ہے اور یہ
سرکاری اعلان کو غلط ثابت کرسکتی ہے اور اس اعتبار سے دیوبندی علماء کا
موقف درست ہونے کا امکان زیادہ ہے۔
اب تو خدشہ یہ
ہے کہ اگر سرکاری کیلنڈر کے اعتبار سے اٹھائیسویں روزے کے بعد عید الفطر
یعنی ماہ شوال کا چاند واضح طور پر نظر آگیا تو مسئلہ گھمبیر شکل اختیار
کرجائے گا۔
اگر سرکاری اعتبار سے چاند انتیسویں
روزے کو نظر آگیا تو دیوبندی حضرات کے لیے وہ تییسویں کا چاند ہوگا اور یوں
دونوں مسالک ایک ساتھ عید منا سکیں گے۔
لیکن اگر
سرکاری اعتبار سے چاند رمضان کی تیسویں کو نظر آیا تو دیوبندی مسلک کے
مقلدین کے لیے خاصی مشکل "ہوجائے گی کیونکہ اس حساب سے ان کے روزوں کی تعداد
اکتیس ہونے کا امکان ہے۔
No comments:
Post a Comment