Pages

Friday 17 August 2012

EID OR IS K AHKAM

   
 
 
عید کے احکام وآداب
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی نبینا محمد وعلی آلہ وصبحہ اجمعین ۔
اما بعد :
عادتا اورباربار تکرار سے آنے والی ہرچیز کوعید کا نام دیا جاتا ہے ، اورعید ایسے شعار ہیں جوہر امت میں پائے جاتے رہے ہیں چاہے وہ اہل کتاب سے تعلق رکھتی ہوں یا پھران کا تعلق بت پرستی سے تھا یا اس کے علاوہ کسی اور سے تعلق رکھیں ۔
اس لیے کہ عید منانا سب لوگوں کی شرست اور طبیعت میں شامل ہے اوران کے احساسات سے مرتبط ہوتی ہے لھذا سب لوگ یہ پسند کرتے ہیں کہ ان کے لیے کوئي نہ کوئي تہوار ہونا چاہیے جس میں وہ سب جمع ہو کراپنی خوشی وفرحت اور سرور کا اظہار کریں ۔
کفار امتوں کی عیدیں اورتہوار اس کے دنیاوی معاملات کے اعتبار سےمنائي جاتی ہیں مثلا سال نو کا تہوار یا پھر زراعت کا موسم شروع ہونے کا تہوار اور بیساکھی کا تہوار یا موسم بہار کا تہوار ، یا کسی ملک کے قومی دن کا تہوار یا پھر کسی حکمران کا مسند اقدار پر براجمان ہونے کے دن کا تہوار اس کے علاوہ اوربھی بہت سارے تہوار منائے جاتے ہيں ۔
اوراس کے ساتھ ساتھ ان کے کچھ دینی تہوار بھی ہوتے ہیں مثلا یھود نصاری کے خاص دینی تہوار مثلاعیسائيوں کے تہواروں میں جمعرات کا تہوار شامل ہے جس کے بارہ میں ان کا خیال ہے کہ جمعرات کےدن عیسی علیہ السلام پر مائدہ یعنی آسمان سے دسترخوان نازل کیا گیا تھا اور سال کے شروع میں کرسمس کا تہوار ، اسی طرح شکر کاتہوار ، عطاء کا تہوار ، بلکہ اب تو عیسائي سب یورپی اور امریکی اور اس کے علاوہ دوسرے ممالک جن میں نصرانی نفوذ پایا جاتا ہے ان تہواروں کومناتے ہیں اگرچہ بعض ممالک میں اصلانصرانیت تو نہيں لیکن اس کے باوجود کچھ ناعاقبت اندیش قسم کے کچھ مسلمان بھی جہالت یا پھر نفاق کی بنا پر ان تہواروں میں شامل ہوتے ہیں ۔
اسی طرح مجوسیوں کے بھی کچھ خاص تہوار اورعیدیں ہیں مثلا مھرجان اورنیروز وغیرہ کا تہوار مجوسیوں کا ہے  ۔
اوراسی طرح فرقہ باطنیہ کے بھی کچھ تہوار ہیں مثلا عیدالغدیر کا تہوار جس کے بارہ میں ان لوگوں کا خیال ہے کہ اس دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضي اللہ تعالی عنہ اوران کے بعد بارہ اماموں سے خلاف پربیعت کی تھی ۔
مسلمانوں کی عید میں دوسروں سے امتیاز :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مسلمانوں کی ان دوعیدوں پر دلالت کرتا ہے اورمسلمانوں کی ان دوعیدوں کے علاوہ کوئي اور عید ہی نہیں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( ہر قوم کی عید اورتہوار ہوتا ہے  اوریہ ہماری عید اورتہوار ہے  ) ۔
لھذا مسلمانوں کے لیے جائزاورحلال نہيں کہ وہ کفار اور مشرکوں سے ان کے تہواروں اورعیدوں میں مشابہت کریں نہ تو کھانے اورنہ ہی لباس میں اورنہ ہی آگ جلاکر اورعبادت کرکے ان کی مشابہت کرنا بھی جائز نہيں ، اور اسی طرح ان کے تہواروں اورعیدوں میں بچوں کو کھیل کود کرنے بھی نہيں دینا چاہیے ، اورنہ ہی زيب وزينت کا اظہار کیا جائے اوراسی طرح مسلمانوں کے بچوں کو کفار کے تہواروں اور عیدوں میں شریک ہونے کی اجازت بھی نہیں دینی چاہیے  ۔
ہر کفریہ اوربدعت والی عید اورتہوار حرام ہے مثلا سال نو کا تہوار منانا ، انقلاب کا تہوار ، عید الشجرۃ ، عیدالجلاء ، سالگرہ منانا ، ماں کا تہوار ، مزدوروں کا تہوار ، نیل کا تہوار ، اساتذہ کا تہوار ، اورعید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب بدعات اورحرام ہیں ۔
مسلمانوں کی صرف اور صرف دو عیدیں اورتہوار ہيں ، عید الفطر اور عیدالاضحی ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی فرمان ہے :
انس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ نبویہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے دو تہوار تھے جن میں وہ کھیل کود کرتے اورخوشی وراحت حاصل کرتے تھے ، لھذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ دو دن کیسے ہیں ؟
لوگوں نے جواب دیا کہ ہم دور جاہلیت میں ان دنوں میں کھیل کود کیا کرتے تھے ، تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
یقینا اللہ تعالی نے تمہیں ان دو دنوں کے بدلے میں اچھے دن دیے ہیں عید الاضحی اور عیدالفطر ۔ سنن ابوداود حدیث نمبر ( 1134 ) ۔
یہ دونوں عیدیں اللہ تعالی کے شعار اورعلامتوں میں سے جن کا احیاء کرنا اوران کے مقاصد کا ادراک اوران کے معانی کو سمجھنا ضروری ہے ۔
ذیل میں ہم شریعت اسلامیہ میں عیدین کے احکام اور اس کے آداب کا مختصر کا نوٹ پیش کرتے ہیں :
اول : عید کے احکام :
عیدکا روزہ رکھنا :
عیدین کا روزہ رکھنا حرام ہے  کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو دنوں میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے :
ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےعید الفطراورعید الاضحی کے دن کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔
صحیح مسلم حدیث نمبر ( 827 ) ۔

  نماز عیدین کا حکم  :
بعض علماءکرام نے عیدین کی نماز کوواجب قرار دیا ہے ، جن میں علماء احناف شامل ہیں اورشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے بھی یہی قول اختیار کیا ہے ، اس قول کے قائلین کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عیدین پر مواظبت فرمائي ہے اور کبھی بھی ترک نہيں کی یعنی ایک بار بھی تر ک نہيں کی ۔
اورانہوں نے اللہ تعالی کے مندرجہ ذيل فرمان سے بھی استدلال کیا ہے :
{ لھذا تو اپنے رب کے لیے نماز ادا کر اورقربانی کر } ۔
یعنی نماز عید ادا کرکے بعد میں قربانی کر ، اوریہاں پر امر کا صیغہ ہے ، اورپھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید میں حاضر ہونے کے لیے گھروں سے باہر نکلنے کا حکم بھی دیا اورجس عورت کے پاس پردہ کرنے کےلیے اوڑھنی اوربرقعہ نہ ہو وہ اپنی بہن سے عاریتا حاصل کرلے  ۔
اوربعض علماء کرام کہتے ہیں کہ یہ فرض کفایہ ہے حنابلہ کا مذھب یہی ہے اورایک تیسرا گروہ کہتا ہےکہ نماز عیدین سنت مؤکدہ ہے ، ان میں مالکیہ اورشافعیہ شامل ہیں ، انہوں نے اس اعرابی والی حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں ہے کہ اللہ تعالی نے بندوں پر پانچ نمازیں ہی فرض کیں ہیں ۔
لھذا مسلمان  کے لیے ضروری ہے کہ وہ نماز عیدین میں حاضر ہونے کی خصوصی حرص رکھے اور کوشش کرے ، اورنماز عیدین کے وجوب کا قول قوی معلوم ہوتا ہے اور یہی کافی ہے کہ نماز عیدین میں حاضر ہونے میں جوخیر وبرکت اوراجر عظیم پایا جاتا ہے اوراس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء اور پیروی بھی ہے ۔
وجوب اورصحیح ہونے کی شروط اورنماز عیدین کا وقت :
بعض علماء کرام جن مین حنفیہ اورحنابلہ شامل ہیں نے نماز عیدین کے وجوب کے وجہ سے اقامت اورجماعت شرط رکھی ہے ، اوربعض کا کہنا ہے کہ اس میں نماز جمعہ والی شروط ہی ہیں صرف خطبہ نہيں ، لھذا خطبہ میں حاضر ہونا واجب نہيں ہے ۔
جمہور علماء کرام کہتے ہيں کہ نماز عیدین کا وقت دیکھنے کے اعتبار سے سورج ایک نیزہ اونچا ہوجانے پر شروع ہوجاتا ہے اورزاول کے ابتداء تک وقت رہتا ہے ۔
نماز عید کا طریقہ :
عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا کہنا ہے : نماز عیدالفطر اورعیدالاضحی دو دو رکعت ہیں یہ قصر نہيں بلکہ مکمل ہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی فرمایا ہے  جس نے بھی افتراء باندھا وہ ذلیل و رسوا ہوا ۔
اورابو سعید رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر اورعید الاضحی عیدگاہ جاتے تو سب سے پہلے نماز ادا کرتے  ۔
نماز عید کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں اوردوسری رکعت میں پانچ تکبیریں ہیں اورتکبیروں کے بعد قرآت ہے ۔
عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ : عیدالفطر اورعیدالاضحی کی پہلی رکعت میں رکوع کی تکبیر کے علاوہ سات اوردوسری رکعت میں پانچ تکبیریں ہیں ۔
اسے ابوداد نے روایت کیا ہے اور سب طرق کے ساتھ یہ روایت صحیح ہے ۔
اگر مقتدی امام کے ساتھ تکبیروں کے دوران ملے تو وہ امام کے ساتھ ہی تکبیر کہے اوراس کی اقتدا کرے گا اوراس کی چھوٹی ہوئي زائد تکبیروں کی قضاء نہيں اس لیے کہ وہ سنت ہیں واجب نہيں ۔
تکبیروں کے مابین کیا کہا جائے :
حماد بن سلمہ عن ابراھیم کی سند سے مروی ہے کہ ولید بن عقبہ مسجد میں داخل ہوئے تو مسجد میں ابن مسعود ، حذیفہ اورابوموسی رضي اللہ تعالی عنہم موجود تھے ، ولید انہيں کہنے لگے عید آگئي ہے اورمجھے کیا کرنا چاہیے ، توابن مسعود رضي اللہ تعالی عنہما کہنے لگے :
اللہ اکبر کہنے کے بعد اللہ تعالی کی حمد وثنا بیان کرے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام کہے اوراللہ تعالی سے دعا کے ، پھر اللہ اکبر کہے اوراللہ تعالی کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام کہے ۔۔۔ الخ  رواہ الطبرانی ۔ یہ حدیث صحیح ہے اوراس کی تخریج ارواء الغلیل وغیرہ میں کی گئي ہے  ۔
نماز عید میں قرات :
 نماز عیدمیں امام کے لیے سورۃ ق اور سورۃ القمر پڑھنی مستحب ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی مندرجہ ذیل حديث میں بھی ہے :
عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ نے ابوواقد رضي اللہ تعالی عنہ سے سوال کیا کہ عیدالفطر اورعیدالاضحی کی نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیا پڑھا کرتے تھے  ،تووہ کہنے لگے : ان میں سورۃ ق والقرآن المجید ، اوراقتربت الساعۃ وانشق القمر پڑھا کرتے تھے ۔  صحیح مسلم حدیث نمبر (891 ) ۔
اور اکثر وارد تو یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسے نماز جمعہ میں سورۃ الاعلی اور سورۃ الغاشیۃ پڑھا کرتے تھے اس طرح نماز عید میں بھی یہی دوسورتیں پڑھتے  تھے  ۔
نعمان بن بشیر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز عیدین اورنماز جمعہ میں سورۃ الاعلی اورسورۃ الغاشیۃ پڑھا کرتے تھے  ۔ صحیح مسلم  حدیث نمبر ( 878 ) ۔
اورسمرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عیدین میں ( سبح اسم ربك الأعلى ) و (هل أتاك حديث الغاشية )  پڑھا کرتے تھے مسند احمد وغیرہ نے روایت کیا ہے دیکھیں صحیح الارواء الغلیل  ( 3 / 116 ) ۔
خطبہ سے قبل نماز ادا کرنا :
عید کے احکام میں یہ بھی ہے کہ نماز عید خطبہ سے قبل ادا کی جائے جیسا کہ مسنداحمد میں ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ ميں گواہی دیتاہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عید والے دن خطبہ سے پہلے نماز عید پڑھائي اوربعد میں خطبہ ارشاد فرمایا ۔
دیکھیں مسند احمد حدیث نمبر ( 1905 ) اورصحیح میں بھی یہ حدیث موجود ہے ۔
اور مندرجہ ذيل ابوسعید رضي اللہ تعالی عنہ کی حدیث بھی اس پر دلالت کرتی ہے کہ خطبہ نماز عید کے بعدہی ہے :
ابوسعید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر اورعیدالاضحی میں عیدگاہ جاتے تو سب سے پہلے نماز سے ابتدا کرتے اورپھر نماز سے فارغ ہوکر لوگوں کے سامنے کھڑے ہوکر خطبہ ارشاد فرماتے اورانہیں وعظ ونصیحت کرتے اورانہیں حکم بھی دیتے اورلوگ اپنی صفوں میں ہی بیٹھے رہتے تھے ۔
اوراگر کوئي لشکر بھیجنا ہوتا تو اس کی تشکیل بھی کرتے ، یاپھرکسی چيز کا حکم دینا ہوتا وہ بھی دیتے  ۔
ابوسعید رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ : لوگ اسی طرح عمل کرتے رہے حتی کہ میں مروان کے ساتھ نکلا ان دنوں مروان مدینہ کا امیرتھا میں عیدالفطر یا عیدالاضحی میں اس کے ساتھ عیدگاہ گیا تووہاں کثیر بن صلت نے ایک منبر بنا رکھا تھا اورمروان نے نماز عید ادا کرنے سے قبل ہی اس پر چڑھنا چاہا تو میں نے اس کا کپڑا کھینچا اوراس نے مجھے کھینچا اوروہ منبر پر چڑھا اورنماز عید سے قبل ہی خطبہ دیا ۔
میں نے اسے کہا اللہ کی قسم تم نے تبدیلی پیدا کرلی ہے ، وہ کہنے لگا اے ابوسعید جوکچھ تمہیں علم تھا وہ جاتا رہا ، میں نے کہا : اللہ کی قسم میں جوکچھ جانتاہوں وہ اس سے بہتر ہے جو میں نہیں جانتا ، مروان کہنے لگا : لوگ نماز عید کے بعد ہمارے لیے بیٹھتے نہيں تھے توہم نے خطبہ نماز سے پہلے شروع کردیا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 956 ) ۔
دوران خطبہ جانے کی اجازت :
عبداللہ بن سائب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید میں شریک ہوا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز عید سے فارغ ہوئے تو فرمانے لگے : ہم خطبہ دینے لگے ہیں جوخطبہ سننا پسند کرے وہ بیٹھا رہے اورجوجانا چاہے چلا جائے ۔ ارواء الغلیل  ( 3 / 96 ) ۔
تاخیر میں عدم مبالغہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی عبداللہ بن بشر رضي اللہ عنہ عیدالفطر یا عیدالاضحی کے لیے لوگوں کے ساتھ نکلے تو امام کی تاخیر پر انکار کیا اورفرمانے لگے :
ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو اس وقت تک ہم فارغ بھی ہوچکے ہوتے تھے ۔۔۔امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے اسے تعلیقا روایت کیا ہے ۔
عیدگاہ میں نفل ادا کرنا :
نماز عید سے قبل اوربعدمیں کوئي نفل نہیں ہیں ، جیسا کہ مندرجہ ذيل ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کی حدیث میں ہے :
ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن نماز عید کے لیے عیدگاہ نکلے اوردو رکعت ادا کی ان سے پہلے اوربعد میں کوئي نماز ادا نہيں فرمائي ۔
سنن ابوداود حدیث نمبر ( 1159 ) ۔
یہ تواس وقت ہے کہ جب عیدگاہ یا پھر عام جگہ پر نماز عید ادا کی جائے لیکن اگر لوگ نماز عید مسجدمیں ادا کریں توپھر مسجد میں داخل ہوکر بیٹھنے سے قبل دو رکعت تحیۃ المسجد ادا کریں گے  ۔
اگر عید کا علم بعد میں دوسرے دن ہو :
ابوعمیر بن انس اپنے انصاری چچاؤں سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا : ایک بار مطلع ابر آلود ہونے کی وجہ سے شوال کا چاند ہمیں نظر نہ آیا تو ہم نے روزہ رکھ لیا ، تو دن کے آخر میں ایک قافلہ آیا اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر گواہی دی کہ انہوں نے کل چاند دیکھا تھا لھذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس دن کاروزہ کھولنے کا حکم دیا اورکہا کہ وہ دوسرے دن صبح نماز عید کے لیے نکلیں ۔
 رواہ الخمسہ ، یہ حدیث صحیح ہے دیکھیں اروائ الغلیل  ( 3 / 102 )
جس شخص کی نماز عید فوت ہو جائے اس کے لیے راجح یہی ہے کہ اس کے لیے  قضاء میں دو رکعت ادا کرنا جائز ہے ۔
نماز عید میں عورتوں کا حاضرہونا :
حفصہ رحمہا اللہ بیان کرتی ہیں کہ ہم قریب البالغ اوربالغ عورتوں کو نماز عیدین میں شامل ہونے سے روکا کرتی تھیں ، توایک عورت آئي اوربنی خلف کے محل میں ٹھری اوراپنی بہن سے حدیث بیان کی  جس کے خاوند نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر بارہ غزووں میں شرکت کی تھی ، وہ بیان کرتی ہے کہ میری بہن بھی ان میں سے چھ غزووں میں اس کے ساتھ تھی وہ کہتی ہے کہ ہم زخمیوں کی مرہم پٹی اور بیماروں کی دیکھ بھال کیا کرتی تھیں ۔
میری بہن نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کیا اگر ہم میں کسی ایک کے پاس اوڑھنی نہ ہو اوروہ نہ جائے  تو کیا اس پر کوئي حرج ہے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اس کی سہیلی کوچاہیے کہ وہ اپنی اوڑھنی اسے بھی دے اوروہ بھی مسلمانوں کے ساتھ خیر وبھلائي اوردعا میں شرکت کرے ، توجب ام عطیہ رضی اللہ تعالی عنہا آئيں تومیں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ، وہ کہنے لگیں میرا باپ قربان ہو جی ہاں میں نے سنا ہے ، وہ جب بھی اس کا ذکر کرتی تو کہتی کہ میرا باپ قربان ہو میں نے اسےنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ وہ فرما رہے تھے :
بالغ اور قریب البالغ عورتیں بھی اورپردہ والیاں بھی یا قریب البالغ اور بالغ اور پردہ اور حیض والیاں بھی مسلمانوں کے ساتھ خیروبھلائي اوردعا میں شریک ہوں اورحیض والیاں عیدگاہ سے دور رہیں ۔صحیح بخاری حدیث نمبر ( 324 ) ۔
قولہ ( عواتق ) عاتق کی جمع ہے اوراس لڑکی کو کہا جاتا ہے جو بالغ ہوچکی ہو یا قریب البلوغت ہو ، یاپھر شادی کی مستحق ہوچکی ہو یااسے کہاجاتا ہے جواپنے گھروالوں کے لیے بہت کریم  ہو ، یا جوخدمت کے لیے نکلنے کے امحتان سے آزاد کردی گئي ہو اسے عاتقہ کہا جاتا ہے ۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پہلے دور یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کےدور کے بعد جوکچھ فساد اور خرابیاں پیدا ہو گئي تھیں اس کی وجہ سے نوجوان لڑکیوں کو باہرنکلنے سے منع کردیا گیا تھا ، لیکن صحابہ کرام رضي اللہ تعالی عنہم نے اس کو نہيں دیکھا بلکہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عمل ہوتا تھا کو ہی برقرار رکھا اوراس پر عمل پیرا رہے ۔
قولہ : ( وکانت اختی ) اس میں محذوف ہے جس کی تقدیر یہ ہے کہ اس عورت نے کہا کہ میری بہن تھی ۔
قولہ : ( قالت ) یعنی اس بہن نے کہا
قولہ :  ( من جلبابھا ) یعنی جس کپڑے کی اسے ضرورت نہيں وہ دوسرے کو عاریتا دے دے ۔
قولہ :  ( وذوات الخدور ) خاء پر پیش ہے اوردال بغیر نقطہ کے خدر کی جمع ہے جس میں خاء پر زير اوردال پر جزم یعنی ساکن ہے ، گھرکےایک کونے میں پردہ جس کے پیچھے کنواری لڑکی بیٹھا کرتی تھی کو خدر کہا جاتا ہے ۔
قولہ : ( فالیحض ) حاء پر پیش اوریاء پر شد ہے اورحائض کی جمع ہے جس کا معنی ہے لڑکیوں میں سے بالغ لڑکیاں یا پھر حیض والیاں باوجود اس کے وہ ناپاک ہیں ۔
قولہ :  ( ویعتزل الحیض المصلی ) ابن منذ رحمہ اللہ تعالی کہتےہیں ان کے علیحدہ رہنے میں حکمت یہ ہے کہ وہ نماز پڑھنے والیوں کے ساتھ بغیرنماز پڑھے کھڑی رہیں تواس حال میں توھین ہے لھذا اس وجہ سے ان کا علیحدہ رہنا مستحب ہوا ۔
حیض والیوں کو عیدگاہ سے دور رہنے  کا سبب یہ بھی ہے کہ : غیر کسی حاجت اورضرورت اورنہ ہی نماز کے مردوں کے لیے عورتوں کا مقارنہ کرنے سےاحتراز کرنا اوربچنا ، اور یہ بھی کہا گيا ہے کہ ان کے خون اوربو سے دوسروں کو اذیت نہ پہنچے ۔
اورحدیث میں ہر ایک کو عید میں شامل ہونے اورعیدگاہ جانے پر ابھارا گیا ہے اوراس میں نیکی اوربھلائي اور تقوی پر ایک دوسرے کا تعاون اورمواساۃ کرنے کی ترغیب دی گئي ہے ، اورحدیث میں یہ بھی ہے کہ حائضہ عورت بھی اللہ تعالی کا ذکر نہ چھوڑے اورنہ ہی خیرو بھلائي والی جگہوں میں جانا ترک کرے مثلا علم اورذکر کی مجالس لیکن مساجد میں نہيں ، اورحدیث میں یہ بیان ہے کہ عورت اوڑھنی اورپردہ کے بغیر نہيں نکل سکتی ۔
اورحدیث میں بہت سے فوائد ہیں جن میں یہ بھی ہے کہ : نوجوان اور پردے والی عورتیں باہر نہ نکلیں صرف جہاں انہيں اجازت دی گئي ہے وہاں جائیں ، حدیث میں عورت کے لیے اوڑھنی اوربرقعہ بنانے کا بھی استحباب پایا جاتا ہے ، اورحدیث میں یہ بھی ہے کہ کپڑے عاریتا حاصل کیے جاسکتے ہیں ۔
اس حدیث سے نماز عید کے وجوب کی دلیل بھی لی گئي ہے ۔۔ ابن ابی شیبہ نے بھی ابن عمر رضي اللہ تعالی عنہما سے بیان کیا ہے کہ وہ نماز عید کے لیے اپنے گھروالوں میں سے جو بھی جانے کی استطاعت رکھتا لے کر جاتے تھے ۔
ام عطیہ رضي اللہ تعالی عنہا کی حدیث میں اس حکم کی علت بھی بیان کی گئي ہے کہ وہ مسلمانوں کی دعا اورخیروبھلائي اوراس دن کی برکت اورپاکی حاصل کرنے کے لیے  شمولیت کریں ۔
امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اپنی سنن میں حدیث ام عطیہ رضي اللہ تعالی عنہا ذکر کرنے کے بعد کہا ہے کہ :
بعض اہل علم نے اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے عورتوں کو نماز عیدین میں عیدگاہ جانے کی اجازت دی ہے ، اورکچھ علماء کرام نے اسے مکروہ جانا ہے ، اورعبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ تعالی سے مروی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ آج عورتوں کا نماز عیدین کے لیے جانا مکروہ سمجھتا ہوں  ۔
لیکن اگر عورت ضرور ہی نکلنا چاہے تو اس کا خاوند اسے اجازت دے دے اوراسے بھی باپردہ ہو کر نکلنا چاہیے اوربغیر زيب وزينت کےنکلے ، اگر وہ اس طرح نکلنے سے انکار کردے تواس کے خاوند کو حق حاصل ہے کہ اسے عیدگاہ جانے کی اجازت ہی نہ دے اور اسے جانے سے روک دے  ۔
عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے  مروی ہے کہ : وہ بیان کرتی ہیں اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہ کچھ دیکھ لیتے جو آج کل عورتوں نے کرنا شروع کردیا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں مسجد جانے سے ہی روک دیتے ، جیسا بنی اسرائیل کی عورتوں کو منع کردیا گیاتھا ۔
اورسفیان ثوری رحمہ اللہ تعالی سے مروی ہے کہ انہوں نے آج کل عورتوں کا نماز عید کے لیے نکلنا مکروہ کہا ہے ۔ سنن ترمذی حدیث نمبر ( 495 ) ۔
ام عطیہ رضي اللہ تعالی عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ مدت بعد اوپر بیان کی گئي حدیث کا ہی فتوی دیا جیسا کہ اس حدیث میں بھی ہے اورصحابہ کرام میں سے کسی ایک نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی ، اور عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کا یہ کہنا کہ :
اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ لیتے کہ عورتوں نے کیا کچھ کرنا شروع کردیا ہے تو وہ انہیں مسجدوں میں جانے سے ہی روک دیتے  ، یہ اس سے معارض نہیں ( جب تک عورت شرعی شروط کو مدنظر رکھتے ہوئے باہر نکلے ) اولی اروبہتر یہ ہے کہ انہیں نکلنے کی اجازت دی جائے جس سے اور جس پر فتنہ کا خدشہ نہ ہو اورنہ ہی اس کے جانے سے کوئي شرعی محذور پیدا ہو ، اورراستوں اور مساجد میں مردوں سے ازدحام نہ ہو تو پھر ۔
اور مرد پر ضروری ہے کہ وہ عورت کا نماز کے لیے گھر سے نکلتے وقت خیال رکھے کہ وہ مکمل باپردہ ہوکرنکلے ، اس لیے کہ وہ سربراہ ہے اوراپنی رعایا کے بارہ میں جوابدہ ہے ، لھذا عورتیں نہ تو بے پردہ ہو اورنہ ہی زيب وزینت کرکےنکلیں بلکہ سادگی سے نکلیں اورنہ ہی وہ خوشبو استعمال کریں  ۔
اورحائضہ عورت مسجد میں داخل نہيں ہوگی اور نہ ہی عیدگاہ میں بلکہ یہ ممکن ہے کہ وہ گاڑی وغیرہ میں ہی خطبہ سننے کے لیے انتظار کرے اور دعا میں شریک ہو ۔
عید کے آداب :
غسل کرنا :
نماز عید کے لیے نکلنے سے قبل غسل کرنا عید کے آداب میں شامل ہے ، امام مالک رحمہ اللہ تعالی نے موطا میں بیان کیا ہے کہ : عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالی عنہ عیدالفطر کے دن عید گاہ جانے سے قبل غسل کیا کرتے تھے ۔ دیکھیں الموطا حدیث نمبر ( 428 ) ۔
اورسعیدبن جبیر رحمہ اللہ سے ثابت ہے کہ انہوں نے فرمایا ( عید کی تین سنتیں ہیں پیدل چلنا ، غسل کرنا ، اور نکلنے سے قبل کھانا ) یہ سعید بن جبیر رحمہ اللہ کی کلام ہے ہوسکتا ہے انہوں نے بعض صحابہ کرام سے اخذ کی ہو ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی نے نماز عید کے لیے غسل کرنے پر علماء کرام کا اتفاق ذکر کیا ہے  ۔
اور جس سبب کی بناپر جمعہ اوردوسرے اجتماعات کے لیے غسل کرنا مستحب ہے وہ سبب عید میں بھی موجود ہے اور ہوسکتا ہے کہ عید میں زيادہ واضح ہو ۔
عید کے لیے نکلنے سے قبل کھانا :
یہ بھی آداب میں شامل ہے کہ نماز عیدالفطر کے لیے نکلنے سے قبل کچھ کھجوریں کھالی جائيں ،کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے انس بن مالک رضي اللہ تعالی عنہما سے بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر کے دن نماز کے لیے کچھ کھجوریں  کھانے سے قبل نہيں نکلتے تھے ، آپ طاق کھجوریں کھاتے تھے ۔  صحیح بخاری حدیث نمبر ( 953  ) ۔
نماز عید سے قبل کھانا اس دن میں روزے رکھنے کی نہی مبالغہ کے لیے مستحب کیا گيا ہے اوراس میں افطار کرنے اورانتہائے صیام کی علامت ہے ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے یہ علت بیان کی ہے کہ یہ روزے میں زيادتی کا سد ذریعہ کے لیے ہے ، اوراس میں اللہ تعالی کے حکم پر عمل بھی ہے ۔ دیکھیں فتح الباری  ( 2 / 446 )
اورجو شخص کھجوریں نہ پائے تو اسے کوئي بھی مباح چيز کھالینی چاہیے ۔
لیکن عیدالاضحی میں مستحب اورسنت یہ ہےکہ وہ نماز عید سے قبل کچھ نہ کھائے بلکہ قربانی کرکے اس میں سے کچھ کھائے ۔
عید کے دن تکبیریں کہنا :
عید والے دن تکبیریں کہنا ایک عظيم سنت ہے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ اورتاکہ تم گنتی مکمل کرو اوراللہ تعالی کی دی ہوئي ھدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اوراس کا شکر ادا کرو } ۔
اورولید بن مسلم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : میں نے امام اوزاعی اورمالک بن انس رحمہم اللہ تعالی سے عیدین میں تکبیریں اونچی آواز میں کہنے کے بارہ میں پوچھا توان کا جواب تھا : جی ہاں عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالی بھی امام کے نکلنے تک اونچی آواز میں تکبیريں کہتے تھے ۔
اورابو عبدالرحمن بن سلمی سے صحیح ثابت ہے کہ انہوں نے کہا : ( عیدالفطر میں عیدالاضحی کی بنسبت زيادہ شدید تھے ) وکیع رحمہ اللہ تعالی کہتے کہ یعنی وہ تکبیریں کہنے میں  ۔دیکھیں ارواء الغلیل ( 3 / 122 ) ۔
اوردار قطنی وغیرہ نے روایت کی ہے کہ ابن عمررضي اللہ تعالی عنہما جب عیدالفطر اورعیدالاضحی کے دن نماز کے لیے نکلتے تو عیدگاہ جانے تک تکبیریں کہنے کی کوشش میں مصروف رہتے اورپھر وہاں بھی امام کے آنے تک تکبریں کہتے رہتے تھے  ۔
اورابن ابی شیبہ رحمہ اللہ تعالی نے امام زھری سے صحیح سند کےساتھ بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا : لوگ جب اپنے گھروں سے نکلتے توعیدگاہ تک تکبریں کہا کرتے تھے اوروہاں بھی امام کے آنے تک تکبیریں کہتے رہتے اورجب امام آجاتا تو وہ خاموش ہوجاتے اورجب امام تکبیر کہتا تولوگ بھی تکبیر کہتے تھے ۔ دیکھین ارواء الغلیل  ( 2 / 121 ) ۔
سلف صالحین کے ہاں گھروں سے نکلنے اورعیدگاہ پہنچ کربھی امام کے آنے تکبریں کہنا معروف و مشہور بات تھی اوربہت سی کتابوں کے مصنفوں نے اسے سلف رحمہم اللہ سے نقل بھی کیا ہے مثلا ابن ابی شیبہ ، اورعبدالرزاق ، اورامام فریابی نے اپنی کتاب " احکام العیدین " میں بھی  نقل کیاہے ۔
ان میں سے نافع بن جبیر رحمہ اللہ تعالی تکبریں کہا کرتے تھے اور لوگوں کے تکبیريں نہ کہنے پر تعجب کا اظہار کرتے  اورکہتے تھے تم تکبیر یں کیوں نہیں کہتے  ۔
اورابن شھاب الزھری رحمہ اللہ تعالی کہا کرتے تھے : لوگ جب اپنے گھروں سے نکلتے توامام کے آنے تک تکبیریں کہتے رہتے تھے ۔
عیدالفطر میں تکبیروں کا وقت چاند رات سے لیکر نماز عید کے لیے امام کے آنے تک رہتا ہے ۔
تکبیر کے الفاظ اورطریقہ :
مصنف ابن ابی شیبہ میں ابن مسعود رضي اللہ تعالی عنہما سے صحیح سند کے ساتھ وارد ہے کہ :
ابن مسعود رضي اللہ تعالی عنہماایام تشریق میں تکبریں کہا کرتے تھے  اور کہتے :
الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله والله أكبر الله أكبر ولله الحمد
اللہ بہت بڑا ہے اللہ بہت بڑا ہے ، اللہ کے علاوہ کوئي معبود برحق نہيں ، اللہ بہت بڑا ہے اللہ ہی کی حمد وثنا ہے ۔
اورابن ابی شیبہ نے یہ روایت ایک جگہ اسی سند سے تکبیر کے الفاظ تین بار نقل کیے ہیں ۔
اورمحاملی نے بھی صحیح سند کےساتھ ابن مسعود رضي اللہ تعالی عنہما سے بیان کیا ہے :
الله أكبر كبيراً الله أكبر كبيراً الله أكبر وأجلّ ، الله أكبر ولله الحمد
اللہ تعالی بہت ہی بڑا ہے اللہ تعالی بہت ہی بڑا ہے ، اللہ بڑا اوراجل ہے اللہ بڑا ہے اوراللہ ہی کی حمد وثنا ہے ۔ دیکھیں الارواء الغلیل ( 3 / 126 ) ۔
عیدکی مبارکباد :
عید کے آداب میں مبارکباد بھی شامل ہے ، اورلوگ آپس میں ایک دوسرے کو اس کی مبارکباد دیتے ہیں اس کے الفاظ جو بھی ہوں مثلاکچھ لوگ تو یہ کہتے ہیں اللہ ہمارے اورآپ کے اعمال قبول فرمائے ، یا کچھ عیدمبارک کے الفاظ بولتے ہیں ، اوراس طرح کے دوسرے الفاظ جو مبارکباد کے لیے مباح ہوں بولے جاسکتے ہیں ۔
جبیر بن نفیر بیان کرتے ہیں کہ : جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک دوسرے سے ملاقات کرتے تو ایک دوسرے سے کہتے اللہ تعالی ہمارے اورآپ کے اعمال قبول فرمائے ۔ اس کی سند حسن ہے دیکھیں فتح الباری ( 2 / 446  )
لھذا صحابہ کرام کے ہاں مبارکبادی معروف تھی اوراہل علم نے بھی اس کی اجازت دی ہے اس میں امام احمد وغیرہ بھی شامل ہیں ، اورروایات ایسی بھی ہیں جوتہواروں پرمبارکبادی کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہیں اورصحابہ کرام کاخوشی کے موقع پر ایک دوسرے کو مبارکباد دینا بھی وارد ہے مثلا کسی کی توبہ قبول ہوتی توصحابہ کرام اسے مبارکباد دیتے تھے ۔
اس میں کوئي شک وشبہ نہيں کہ مبارکباد دینا مکارم اخلاق  اورمسلمانوں کے مابین اجتماعی محاسن کی مظہر ہے  ۔
اور مبارکباد کے موضوع میں کم از کم یہ ہے کہ جوآپ کو عید کی مبارکباد دے اسے آپ بھی مبارک دیں یعنی جوعید مبارک کہے آپ بھی اسے عیدمبارک کہیں ، اوراگر وہ خاموشی اختیار کرتا ہے تو آپ بھی خاموش رہیں جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہيں : اگرمجھے کوئي مبارکباد دے تومیں اسے جواب میں مبارکباد دوں گا اوراگر نہ دے تو میں خود اس کی ابتداء نہيں کرونگا ۔
عیدین کےلیے خوبصورتی اورتزیین کرنا :
عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ عمررضي اللہ تعالی عنہ نے بازار میں ایک ریشمی جبہ بکتا دیکھا تو اسے لیکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اورکہنے لگے : اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسے خرید لیں اورعید اوروفود کی ملاقات کے وقت پہنا کریں ، تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا یہ اس کا لباس ہے جس کاکوئي حصہ نہ ہو ۔۔۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 948  ) ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوبصورتی اورتجمل اختیار کرنے کو کا اقرار کیا لیکن انکار صرف اس جبہ کو خریدنے پر کیا تھا اس لیے کہ یہ ریشمی تھا ۔
اورجابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ :  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جبہ تھا آپ وہ جبہ عیدین اورجمعہ کے دن زيب تن کیا کرتے تھے ۔ دیکھیں صحیح ابن خزیمۃ حدیث نمبر ( 1765 ) ۔
اورامام بیہقی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے کہ ابن عمر رضي اللہ تعالی عنہماعید کے لیے سب سے زيادہ خوبصورت لباس زيب تن کیا کرتے تھے  ۔
اس لیے انسان کو چاہیے کہ عید کے موقع پر اپنے پاس موجود سب سے خوبصورت لباس زيب تن کرے ۔
لیکن عورتوں کو نماز عید کے لیےجاتے وقت زيب وزینت اورخوبصورتی اختیار نہیں کرنی چاہیے اس لیے کہ انہيں اجنبی مردوں کے سامنے اس کے اظہار سے روکا گيا ہے ، اوراسی طرح گھر سے باہر جانے والی عورت کے لیے خوشبو لگانا بھی حرام ہے  ۔
یا پھر وہ پرفتن ہوکر مردوں کے سامنے آئے کیونکہ وہ تو صرف عبادت اوراطاعت کرنے نکلی ہے ، کیا آپ یہ مان سکتے ہیں کہ کسی بھی مومنہ عورت سے جواطاعت کرنے نکلی ہو معصیت کا ارتکاب ہو اور اللہ کے احکام کی مخالفت کرتے  ہوئے تنگ اورچست قسم کا لباس زيب تن کرے یا پھر ایسے بھڑکیلے رنگ کا لباس پہنے جوجاذب نظر ہو یا نظروں کو اپنی طرف مبذول کروانے والا ہو یا پھرخوشبو لگائے ۔
عید کا خطبہ سننے کا حکم :
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب " الکافی " میں کہا ہے :
جب نماز عید سے سلام پھیرے تو خطبہ جمعہ کی طرح دو خطبے دے ، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے ، اورخطبہ جمعہ میں چاراشیاء کا فرق ہے ۔۔۔ پھر کہا کہ :
چوتھا : یہ دونوں ( یعنی عید کے خطبے ) سنت ہیں ان کا سننا واجب نہيں اورنہ ہی ان میں خاموشی شرط ہے ، اس لیے کہ عبداللہ بن سائب رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز عید میں حاضر ہوا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نماز مکمل کرلی تو فرمانے لگے :
ہم خطبہ دینے لگے ہيں جو سنناچاہے وہ بیٹھ جائے اورجوجانا چاہتا ہے وہ چلا جائے ۔  دیکھیں : الکافی  صفحہ نمبر ( 234 ) ۔
اورامام نووی رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب شرح المھذب کی شرح المجموع صفحہ نمبر23 میں کہتے ہیں :
لوگوں کے لیے خطبہ سننا مستحب ہے ، نمازعید کی صحت کےلیے خطبہ سننا شرط نہيں ، لیکن امام شافعی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : اگر کسی نے عید یا چاند گرہن اورنماز استسقاء یا حج کا خطبہ نہ سنا یا اس میں بات چیت کی یا پھر اسے چھوڑ کر ہی چلا گيا تومیں اسے مکروہ سمجھتا ہوں اوراس پر اعادہ نہيں ہے ۔
اورشرح الممتع میں شیخ ابن ‏عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
قولہ : { جمعہ کے دونوں خطبوں کی طرح  } یعنی وہ دو خطبے دے اس میں جواختلاف تھا وہ ابھی ہم بیان کرکے آئيں ہيں ، مثلا جمعہ کے خطبے احکام میں حتی کہ بات چیت کی حرمت میں بھی مختلف ہیں ، اورنہ ہی اس میں حاضر ہونا واجب ہے ، لھذا خطبہ جمعہ میں حاضر ہونا واجب ہے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ اے ایمان والو جب نماز جمعہ کی اذان ہوجائے تو اللہ تعالی کے ذکرکی طرف چلے آؤ اورخرید وفروخت ترک کردو } ۔
لیکن عید کے خطبے میں حاضر ہونا واجب نہيں ہے ، بلکہ انسان اگر چاہے تو اسے وہاں سے جانے کی اجازت ہے ، لیکن اگر وہ وہاں موجود رہے تو پھر اس پر واجب ہے کہ وہ کسی سے بھی بات چیت نہ کرے اورمصنف رحمہ اللہ کا قول  ( جمعہ کے خطبے کی طرح  ) میں اسی طرف اشارہ ہے ۔
دیکھیں الشرح الممتع علی زاد المستقنع ( 5 / 192 ) ۔
اوربعض اہل علم کاکہنا ہے کہ عید کے خطبوں میں خاموشی واجب نہیں ہے ، اس لیے کہ اگر خاموشی واجب ہوتی توپھر حاضر ہونا بھی واجب ہوتا اوروہاں سے جانا حرام ، لھذا جس طرح خطبے سے جانا جائز ہے تو پھر سننا بھی واجب نہیں ہوگا ۔
لیکن اس قول کی بنا پر یہ ہے کہ اکر کلام سے حاضرین کو تنگی اورتشویش ہوتی توتشویش کی وجہ سے کلام ہوتی نہ کہ سننے کی بنا پر ، تواس بنا پر نماز عید کے خطبے میں اگر کسی کے پاس کوئی کتاب ہو تو وہ اسے پڑھ سکتا اور اس کامطالعہ کرنا جائز ہے ، اس لیے کہ اس سے حاضرین کوکوئي تشویش اورتنگی نہيں ہوتی ۔.

http://islamqa.info/ur/ref/books/58

 
 






 
 

- فطرانہ دينے ميں غلہ اور كھانا كى اقسام

Islam Question and Answer - فطرانہ دينے ميں غلہ اور كھانا كى اقسام

- عيد سے ہفتہ قبل فطرانہ كى ادائيگى كرنا

Islam Question and Answer - عيد سے ہفتہ قبل فطرانہ كى ادائيگى كرنا

Islam Question and Answer - عيد سے ہفتہ قبل فطرانہ كى ادائيگى كرنا

Islam Question and Answer - عيد سے ہفتہ قبل فطرانہ كى ادائيگى كرنا

Islam Question and Answer - كيا فطرانہ كے بغير رمضان كے روزے معلق رہتے ہيں

Islam Question and Answer - كيا فطرانہ كے بغير رمضان كے روزے معلق رہتے ہيں

Wednesday 15 August 2012

Drinks in Ramdan


Ramadan DrinksDrinks for Ramadan
Milk shakes:
Usually milk shake is associated with the mango because people like to drink mango milk shake very much. Mango shake is very tasteful but you should not drink it more than once a day because it is not healthy. Except mango, you can drink the date’s shake that is very healthy and full of energy.
Milk:
No other liquid is better than milk especially for “Sehri”. It not only provides you the calories but also gives you calcium. If you don’t like milk then you can mix Ovaltien in it, which is available in many flavors or you can add saffron in milk to get a different taste.
Strawberry juice:
Strawberry drink is best for summers and Ramadan as well because it is a rich source of energy and it provides calories to the body so you can consider this tasty drink for Sehri and Aftari.
Tea or coffee:
Most of the people are habitual of drinking hot drinks like coffee and tea, which is not healthy because these drinks increase you thirst. Ice tea or ice coffee is better than tea and coffee; best for Ramadan.
Water:
Nobody can deny the importance of water as it is important to not only quench the thirst but also needed by the human body for proper functioning of internal systems. In Ramadan, you should drink 3 – 4 glasses of water in Sehri and 4-5 glasses in Aftari to meet the body requirements.
Watermelon juice:
This juice is considered as the best source to keep your body and skin hydrated. It also helps to produce hemoglobin. For making water melon juice, take a water melon, cut it into small pieces, put it in the blender, add ice cubes and blend it very well. You can also add lemon juice and salt in it.
Lemon Shikanjbeen:
An awesome drink for Ramadan is lemon Shikanjbeen with mint leaves and it has no side effects.
Mint and peach green tea:
For making green tea of mint and peach, take two cups of water, five green tea bags, 12 ounce of peach pulp1/2 cup mint leaves and 3 Tb sugar. Boil the water in a sauce pan, add tea bags and cover the lid for five minutes. After that, take the tea bags out of eth pan, and add sugar, pulp, mint leaves in it. Cover the pan and place it in the airy place for two hours. After 2 hours, add ice cubes and your drink is ready. It is very essential for your Ramadan diet.

Tuesday 14 August 2012

skin care in Ramdan


Beautiful Skin in RamadanSkin Care Tips during Fasting in Ramadan
Dehydration is the most common threat that is associated to the summer season. Due to dehydration, the skin becomes dull and faint. On the top of it, when you are fasting, you cannot take the amount of liquid that you would usually take during the day to keep you hydrated. Your meal times also change during this month, making your skin prone to many diet related hazards, which also affect the quality of your skin.
Following are the some skin care tips for the Holy month of Ramadan.
  • Diet is very important because it has direct effect on the skin. Avoid eating oily and spicy food items because these can turn your skin oily and result in the outgrowth of pimples, acne and skin rashes.
  • Eat a good amount of fresh vegetables and fruits in sehri and iftaar to provide essential nutrients to the skin.
  • Protect yourself and your skin from the harmful effects of the dehydration; drink a lot of liquids between iftaar and sehri.
  • If your skin is dry then you should do cleansing and toning regularly.
  • Women with oily skin should not use oily creams and lotions in Ramadan.
  • It is good to wash your face with plain water frequently. Along with the moisturization of face it also removes the extra oil and dust from the skin.
  • Spray rose water 3-4 times a day on sensitive parts of your skin during Ramadan to keep your skin cells fresh.
  • Avoid cosmetics as much as you can.
If you have to go to work or you have to wear makeup on daily basis for some reason, then you must try these tips.
  • Foundation looks good and hides the spots on your skin but, apply a thin layer of foundation.
  • Use blush-on of mat light colors like peach, pink and brown.
  • Using eye shadow during the day is not necessary but if you really have to use it then use light colors.
  • You can also wear kajal or eye liner to make your eyes to look gorgeous.
  • Try not to use any kind of lip wear during the month of Ramadan.
  • http://www.urdumania.com/urdu-topics/islam/ramadan/ramadan-skin-care-tips.php

shabe qadar


Laila tul Qadar


Laila tul Qadar is not only in 27 Ramdan


Lailatul Qadr is not on 27th Ramadan Only

Lailatul Qadr is that blessed night in which ALLAH swt decides the matters of everything for the next year. The term “qadar” means decree or fate which is also called qismat. Hence the night of decree is none other than lailatul qadar which has also termed as lailatul mubarika in surah dukhan.


The significance of this blessed night cannot be covered in the words because ALLAH swt Himself says “wa ma adraka ma lailatul qadar : and what do you know what laila tul qadar is”. This verse means that no matter how much we say we cannot encapsulate the immense significance of this night.

There are various ahadtih regarding this blessed night  we will first see few of them and then will continue with the article.

Narrated 'Aisha: Allah's Apostle said, "Search for the Night of Qadr in the odd nights of the last ten days oframadan." (Bukhari - Book #32, Hadith #234)

he Holy Prophet Muhammad (Sallallaahu Alayhi Wasallam) said: “Laylatul Qadr has been bestowed by Allah to my Ummah (People). It was not given to any people before this.” (Dur-Mansoor).

Hazrath Aisha (Radhiallaahu Anha) reported that the Apostle of Allah said: “Search for the Blessed Night in the odd(nights) from the last ten (nights) of Ramadhaan” (Bukhari)

Hazrath Aisha has narrated another saying:
“I asked: O Messenger of Allah! Tell me if I were to find a Night of Power, what should I recite therein?” Holy Prophet Muhammad (Sallallaahu Alayhi Wasallam) advised her to recite:

Al-laa-hum-ma in-na-ka ‘afoow-wan tu-hib-bul-’af wa fa-fu ‘an-ni.
O Allah! You are Forgiving, You love forgiveness, so forgive me. (Bukhari).

Seek it in Ramadan in the last ten nights. For verily, it is during the odd nights, the twenty-first, or the twenty-third, or the twenty-fifth, or the twenty-seventh, or the twenty-ninth, or during the last night." Sahih Hadith Ahmad 5:318.

Whoever stays up (in prayer and remembrance of Allah) on the Night of Qadr fully believing (in Allah’s promise ofreward for that night) and hoping to seek reward (from Allah alone and not from people), he shall be forgiven for his past sins.” Sahih Hadith Bukhari / Muslim.

Thus, from the above mentioned ahadith, we can say confidently that this night comes in the last ten days of Ramadan and in the odd nights only. One of the odd night will be this blessed night. Which night is it, we are not told we are only told to find it.

On 27th Ramadan, the Quran was completed while in the blessed night of lailatul qadar, Quran was started reveling thus it is a different night from 27th and has a different meaning. Obviously, when Quran started to revel it was a decision of ALLAH swt to change the fate of those who were looking for salvation and to change the fate of those who were the earth’s gods. Thus lailatul qadar is not know it is to be found in the last five odd nights of Ramadan i.e. 21st, 23rd, 25th, 27th and 29th

Night of Power | Lailatul (Shabbe) Shabe Shab Qadr | Laylatul (Laila Tul) Qadar Qader

Night of Power | Lailatul (Shabbe) Shabe Shab Qadr | Laylatul (Laila Tul) Qadar Qader

Monday 13 August 2012

http://ramdanspecialsite.blogspot.com

Chocoholic MADNESS: Ramdan Kareem

what Ramdan isnt?


Every year, bloggers and local papers write countless posts on what Ramadan is for the uninitiated, with many — like myself — citing gripes frequently, but for the most part, newspapers love to shed light on how wonderful Ramadan is.
From my experience and from non-Muslims’ experiences around me, how Ramadan is portrayed is exactly like how any product is portrayed prior to its market debut: Phenomenally spiritual, wonderful, enchanting — and ultimately falls short on these promises. People have come to see Ramadan as a symbol that encompasses everything negative about Arab Muslims living in the Middle East: lazy, impolite, excessive in consumption (of edibles and non-edibles), and discriminating against non-Muslims.
In effect, what people see of Ramadan these days is exactly everything that is not what Ramadan stands for: discipline.
At some point in history, Ramadan joined the ranks of Christmas and Thanksgiving and other religious holidays in their notoriety for exorbitant consumption. The major difference is that Ramadan is one lunar month long, which effectively makes it the most expensive of months for everyone — be it brands, consumers, or just plain residents who are trying to make their way through the world.
I will borrow some of Christianity’s teachings of the Cardinal Sins to elaborate on how people these days make Ramadan the sad state it is in — what Ramadan is, in fact, not:

LUST

Forget about sex; this isn’t the sort of lust I am talking about. It is expressed moaning and griping for everything that is out of reach. Water. Food. Coffee. Chocolate. Yes, it seems cute and funny sometimes. But eventually the persistent nagging becomes worrying. The lust for that cigarette break. You’d see people experiencing withdrawal symptoms from everything they could put in their mouths. And good God, the accompanied bickering (and self-victimization. See “Sloth”).
Worse than the relatively understandable moaning the first few days, what ticks me off the most is the lust for everything luxury. Brands (see “Greed”) just love how people want to consume in Ramadan everything that is “exclusive”. Countless “Ramadan Specials” and “Ramadan Promotions” that draw people in for that luxurious Iftar (breaking the fast; the first meal). People actively look for those Ramadan tents to indulge the rest of the vices in. And the greatest indulgence of all is….

GLUTTONY

That’s right. With the UAE trying to control inflation during Ramadan period because there is a “high demand for commodities”, you’d wonder if the world is coming to an end. Anyone who has been to an Iftar buffet can see exactly why people complain from gaining weight in the month despite not eating half the day. Stores run out of food items quickly.
Let’s pause for a minute here. The population is unlikely to double a week before Ramadan. And, in practice, when people go out grocery shopping for the week, they’re shopping for a two or three-meal-per-day week. And probably add in a few extra items for the sake of indulgence and maybe for the night when friends would come over. Come Ramadan, and the very same people who should shop for that one meal for Iftar and the other smaller meal before sunrise would now shop for what you’d think is either a family of 826 or for an average family which is effectively constantly eating.
Food becomes the primary form of entertainment and indulgence. And, sadly, the tonnes of wasted food that gets thrown away is probably one of the worst by-products of a fasting Muslim.

GREED

This one goes out to all brands, hotels, companies, and institutes that feed on the lust and gluttony of people. Hungry? Come eat at our exclusive luxury buffet for only this much and that much. Why, you also get a nice view of Burj X at 90% humidity. Hey, check out our wonderful brand! See what we do in Ramadan! See how we play with your emotions so you can come purchase our products! Buy this bundle of electronics you don’t need in our EXCLUSIVE Ramadan offer! (also check back at our other “exclusive” offers every three months)

SLOTH

If there’s anything a fasting Muslim is ever good at, it’s this: “Hey… yeah can we postpone this? I am fasting you know.” Everyone is lethargic and no one wants to do anything. I sympathise because the lack of food and water will eventually hit cognitive abilities, but some people just push it way too far.

WRATH

So not only do people make Ramadan as an excuse to not do anything, but they get bitchy about it, too. And you haven’t seen wrath unless you’ve been in rush hour traffic in Ramadan.

THE DISCRIMINATION

Though Muslims and non-Muslims both get shorter working hours, from what I have seen in the UAE and KSA is that laws are enforced to “protect the feelings of fasting Muslims” such as having food courts in malls close or be obscured by a labyrinth of curtains. No one is allowed to eat or drink in public, lest a poor, hungry Muslim feels just awful for not being able to eat or drink or have that much needed coffee.
If that is the case, why is the law not applicable outside of Ramadan, too? I mean, there are plenty of hungry, poor people and labourers on the street all year round, right? It’s OK to eat in front of them while they drool? Isn’t “feeling for the hungry and poor” one of the many aspects of why Muslims fast? So how are you feeling for them if you’re not confronted with the temptations? If you’re in your ivory towers of law that forbids temptation during the day and floods you with it during the night, in what possible sense are you fasting?
And why should non-Muslims be subjected to it anyway? They need to eat. It’s their right. They go to a shopping mall and they can’t even snack without hiding behind curtains. Listen, if a Muslims really wants to eat, he or she will eat. And I admit I’ve done it before.

So, here you have it. Things what Ramadan is NOT about, but have become the status quo thanks to us.
 http://blog.jarofjuice.com/2012/07/what-ramadan-isnt/